Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 عشرت جہاں کو اپنے ہاں موجود دیکھ کر صفدر بے حد خوش ہوئے تھے اور ان کے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے لگے تھے، منال صوفے پر بیٹھیں ٹرالی پر رکھے کپ میں کافی نکال رہی تھیں۔
”میں بہت خوش ہوں آنٹی! آپ کو قریب دیکھ کر میں بے حد خوش ہوں۔ لندن سے واپسی کے بعد میں خود کو بے حد تنہا محسوس کر رہا ہوں، بہت ٹوٹ گیا ہوں میں سعود کی نالائقی اور بے حسی سے۔
”بیٹا! آپ حوصلہ نہ ہاریں ایسا وقت بھی آتا ہے کبھی کبھی زندگی میں جب انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ تنہا ہوتا نہیں ہے سب اس کے اپنے موجود ہوتے ہیں۔“ عشرت جہاں نے اس کو ممتا بھرے لہجے میں سمجھایا تھا۔
”اب کے سعود کے برتاؤ نے صفدر کو بے حد اپ سیٹ کر دیا ہے، دو ماہ ہو گئے ہیں ان کو واپس آئے ہوئے اور ان کی حالت ابھی تک پہلے دن جیسی ہے بھلا نہیں پا رہے ہیں۔


“ مثنیٰ نے کافی سرو کرتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔
”اس عرصے میں اس نے ایک بار بھی کال کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم پر کیا گزر رہی ہے ہم زندہ بھی ہیں یا مر گئے ہیں؟“ وہ غصے سے گویا ہوئے۔
”بدگوئی مت کرو بیٹا! اللہ تم دونوں کو سلامت رکھے، اس طرح ٹینس رہ کر آپ خود کو بیمار کر لیں گے۔“
”کیا کروں آنٹی جان! مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے میں کس طرح اپنے اکلوتے بیٹے کو سمجھاؤں، کس طرح اسے ضائع ہونے سے بچاؤں؟ وہ خود سے اس بدبخت لڑکی کی بے وفائی کا بدلہ لے رہا ہے۔
“ وہ سخت مضطرب و بے چین ہو رہے تھے۔
”میں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی، کسی کا حق نہیں مارا، میرا رویہ سب کے ساتھ بہترین رہا ہے۔“ ان کی بات پر مثنیٰ نے ان کی طرف دیکھا تھا ان کی آنکھوں میں کتنے شکوے و شکایات تھیں وہ بیٹے کی بے پروائی و بے حسی کی آگ میں جل رہے تھے اس کی جدائی و تنہائی کا خیال انہیں تڑپا رہا تھا۔ آج انہیں احساس ہو رہا تھا اولاد جدا ہو جائے تو زندگی کتنی بوجھل اور بوجھ بن جاتی ہے وہ اس دکھ کو ایک عرصے سے جھیل رہی تھیں اور صفدر جمال آگاہ ہونے کے باوجود بھی اس کا احساس نہیں کرتے تھے، اب مکافات عمل ان کے ساتھ شروع ہوا تو وہ بچوں کی مانند بلک رہے تھے وہ عجیب سے احساسات کا شکار تھی۔
ان کا دکھ دہرا ہو گیا تھا… پہلے وہ پری کے دکھ میں روتی تھیں تو اب بیٹے کی جدائی اور اس کی ناکام زندگی ان کیلئے بھی دکھ و کرب کا باعث تھی۔
”مثنیٰ! دکھ کی اس گھڑی میں تم کو صفدر جمال کی دل جوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے بہت پریشان ہیں جمال ان دنوں۔“ ان کو خاموش دیکھ کر عشرت جہاں نے رسانیت سے سمجھایا تھا۔
”مجھے نہ سمجھائیں ممی! میں اپنے فرض کو بخوبی پہچانتی ہوں، صفدر کو ان چند ماہ میں احساس ہوا ہے اولاد کی جدائی کی اذیت کا، میں سالوں سے اس اذیت کو سہہ رہی ہوں۔
“ ان کے انداز پر صفدر نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تھا۔
###
فراز صاحب کی طبیعت سنبھل رہی تھی تین دن بعد وہ ہوش میں آئے تھے، ڈاکٹرز نے خوش خبری سنائی تھی وہ اب خطرے سے باہر تھے، انہیں آئی سی یو سے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ طغرل نے کال سننے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کئے تھے ایک ہفتے سے جو اس پر رنج و ملال، پریشانی و تفکر کی جو کیفیت سوار تھی وہ ایک حد تک کم ہو گئی تھی مذنہ کو بھی بڑے بیٹے تیمور نے کال پر خوش خبری دے دی تھی ان کے دل میں بھی کچھ سکون در آیا تھا۔
رات کو کھانے پر اماں نے دونوں بیٹیوں، داماد اور ان کے بچوں کو بھی انوائٹ کیا تھا ساتھ عائزہ کے سسرال کو بھی دعوت دی تھی، رات گئے تک ہلہ گلہ رہا تھا۔
آصفہ اور عامرہ کی بیٹیاں تتلیوں کی طرح طغرل کے اردگرد منڈلاتی رہی تھیں اور وہ عام انداز میں ان سے ملتا رہا تھا۔ عادلہ کوئی فیصلہ کر چکی تھی سو وہ نارمل رہی تھی۔
تمام مہمانوں کے جانے کے بعد وہ فیاض کے پاس آ گیا وہ لاؤنج میں بیٹھے کسی سے کال پر مصروف تھے اس کو دیکھ کر مسکرائے اور ہاتھ سے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا طغرل بیٹھ گیا وہ جانے سے قبل ان کو ڈیڈی کی طبیعت کا بتانا چاہتا تھا۔
”شیری بیٹا! میں نے آپ کو ڈنر پر انوائٹ کیا تھا اور آپ بنا ڈنر کئے کیوں چلے گئے؟ میں شام سے کال کر رہا ہوں، اب جا کر بات ہوئی ہے آپ سے۔“ وہ نرم لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
شیری کا نام سنتے ہی اس کے اندر ناگوار احساس بیدار ہونے لگے۔
”میں اپنے بیٹے طغرل سے ملواتا آپ کو۔“ وہ سر جھکائے کچھ سوچتے ہوئے طغرل کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔
”بھائی کی اولاد بھی اپنی اولاد ہوتی ہے بیٹا! آفٹر آل طغرل مجھے بیٹوں سے بڑھ کر عزیز ہے ہی از نائس مین، آج آپ ڈنر پر آتے تو آپ سے ملاقات ہو جاتی کل تو ان کی فلائٹ ہے انشاء اللہ۔ جلدی واپسی ہو گی پھر آپ سے ملاقات کرواتا ہوں۔“ شیری سے رسمی جملے ادا کرنے کے بعد موبائل ٹیبل پر رکھ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر شفقت بھرے لہجے میں گویا ہوئے۔
”ہوں تو آپ کل جا رہے ہیں، کب تک واپسی ہو گی؟“
”میں جلد واپس آنا چاہوں گا انکل! لیکن مجھے پتا نہیں میں کب آؤں گا؟ کتنا ٹائم لگے گا میری واپسی میں۔“
”آپ کے پراجیکٹ ان کمپلیٹ ہیں ابھی، بنگلے پر بھی کنسٹرکشن ہو رہی ہے آپ کو ٹائم سیٹ کرکے جانا پڑے گا۔“ اس کی تفکر بھری سنجیدگی انہیں کچھ احساس دے گئی اور وہ کہتے ہوئے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
”آر یو رائٹ مائی سن! کوئی پریشانی ہے بہت الجھے الجھے لگ رہے ہیں، کیا مجھے نہیں بتائیں گے کہ کیا پرابلم ہے؟“
”جی انکل! میں ایک بات آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں۔“ اس نے مناسب لفظوں میں فراز صاحب کی طبیعت کے بارے میں ان کو آگاہ کیا بڑے بھائی کے ایکسیڈنٹ اور ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کا سن کر متفکر و آبدیدہ ہو گئے تھے۔
”ڈیڈی کی طبیعت ٹھیک ہے وہ تیزی سے امپرو ہو رہے ہیں، آپ فکر مت کریں۔
ڈیڈی کی وِل پاور کس قدر اسٹرونگ ہے یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں انکل۔“ اس کے سنجیدہ چہرے پر مسکان کی ایک رمق ابھری تھی۔
”ہوں… ہوں، میں خوب جانتا ہوں بھائی جان اتنی آسانی سے شکست کھانے والے نہیں ہیں۔ بہت باہمت و حوصلہ مند ہیں مگر افسوس اس وقت پر ہو رہا ہے اتنی تکلیف میں جب ان کو میری ضرورت ہے میں ان سے اتنی دور بیٹھا ہوں۔“ ان کے بھیگے لہجے میں بھائی کی بے حد محبت کی خوشبو تھی۔
”تیمور بھائی اور قاسم بھی ہیں ان کے پاس وہ کیئر کر رہے ہیں ان کی، آپ پریشان مت ہوں پلیز انکل۔“ اس نے ہر ممکن ان کو دلاسہ دینے کی سعی کی۔
”وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں اور میں محروم ہوں اپنا حق ادا کرنے سے بھائی تو بھائی کا بازو ہوتا ہے بیٹا!“
”میں بھی دوسری فلائٹ سے وہاں پہنچ رہا ہوں، ٹرائی کرتا ہوں بائی چانس مجھے کوئی سیٹ مل جائے پھر آپ کے اور بھابی کے ساتھ ہی روانہ ہو جاؤں گا۔
“ ٹیبل پر رکھے موبائل کو وہ اٹھاتے ہوئے گویا ہوئے۔
”انکل! دادی جان کو کیا بتائیں گے؟ ان کی وجہ سے میں نے کسی کو نہیں بتایا ہے، دادی جان کو معلوم ہو گیا تو وہ بے حد پریشان ہو جائیں گی، جو ان کی صحت کیلئے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔“ اس نے دبے لفظوں میں اس کو سمجھانے کی سعی کی۔
”اوہ… ہو!“ انہوں نے گہرا سانس لے کر دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا تھا ان کے چہرے پر سخت کشمکش و اضمحلال تھا۔
”مجھے احساس تھا آپ کی اور دادی جان کی اٹیچمنٹ کا اسی وجہ سے میں نے پہلے آپ کو نہیں بتایا تھا، اب تو وہ بہتر ہیں آپ فون پر ان سے بات کر لیں آپ مطمئن ہو جائیں گے پھر میرے جانے کے بعد میرا تمام کام آپ کی ہی ذمہ داری ہوگا، آپ ہی لک آفٹر کریں گے۔“
”انشاء اللہ اب تو مجھے یہ ذمہ داری لینی پڑے گی۔“ خود پر قابو پانے کیلئے ان کو کچھ ٹائم لگا تھا وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے اس کا شانہ تھپتھپا کر اسے سمجھانے لگے۔
”پریشان مت ہونا بیٹا! میں یہاں سب سنبھال لوں گا، بھائی جان جلد ہی تندرست ہو جائیں گے اور خود یہاں آئیں گے ان شاء اللہ۔ میری دعا ہے۔“ بہت ساری باتیں ان کے درمیان ہوئی تھیں وقت گزر رہا تھا اور یہ اس کی یہاں آخری رات تھی۔
وہ یہ رات اپنوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا جس کا ابتدائی حصہ دوسروں کے سنگ گزر چکا تھا اور اب اپنے کچھ خاص لوگوں کے ساتھ وہ اس رات کو یادگار بنانا چاہتا تھا جن میں سرفہرست ایک ہستی سے اس کی ملاقات ہو گئی تھی۔
فیاض صاحب جو اس کے دوست بھی تھے اور چچا بھی، جن سے اس کو ایک دلی لگاؤ تھا حد درجہ انسیت تھی ان سے گفتگو کرکے وہ دوسری ہستی دادی جان کی طرف چل پڑا تھا۔

   1
0 Comments